• صارفین کی تعداد :
  • 3000
  • 10/30/2010
  • تاريخ :

ديرپا رشتوں کا اثر

گھرانہ

خدا نے انسان کے لئے ہميشہ يہ چاہا کہ وہ ايک مضبوط سماجي ماحول ميں رہے۔ چنانچہ اسلام نے شادي کي تاکيد کي اور ايک سے زيادہ شادي کي اجازت بھي شايد اسي لئے دي کہ انسان ہميشہ محبتوں کے مضبوط رشتوں ميں بندھا رہے۔

دين اسلام نے والدين کے ذمہ اولاد کے حقوق رکھے تاکہ بچوں کو ايک بھرپور محبت ملے اور بچوں کے ذمہ والدين کے حقوق رکھے تاکہ والدين کو ان کي پرورش کا بہترين اجر نصيب ہو۔ نيز بوڑھے والدين کي عزت و احترام کا حکم ديا تاکہ ان کو بھي ہميشہ محبت بھرا مضبوط سہارا نصيب ہو۔

خالقِ ازل نے پڑوسيوں، رشتہ داروں، مسافروں غلاموں، غريبوں، وغيرہ کے حقوق بھي بتائے تاکہ سب کو ايک مضبوط اور محبت بھرا ماحول اور پُرخلوص سہارا نصيب ہو اور ايک بھرپور اور مستحکم معاشرہ تشکيل پائے۔ اس طرح کا معاشرہ عموماً ظلم سے پاک ہوتاہے اور کسي پر کسي بھي طرح کي ناانصافي کو برداشت نہيں کرتا اور اس کے خلاف آواز اٹھاتا اور ضرورت پڑے تو جنگ بھي کرتا ہے، جس کے نتيجے ميں ظالم کو طويل عرصے تک پنپنے کا موقع نہيں ملتا۔

اس کے مقابلے ميں ہوس پرست اور شيطان صفت ظالم اور بدقماش لوگوں کي خواہش رہتي ہے کہ ظلم کے ذريعے لوگوں پر اپني دھاک بٹھا ديں تاکہ عوام الناس کسي بھي طرح آواز اٹھانے اور لڑنے بلکہ اس بارے ميں سوچنے سے بھي پرہيز کرے۔ اسي لئے ظالمانہ نظام کي ہميشہ يہ خواہش رہتي ہے کہ معاشرہ کمزور رہے اور کوئي شخص کسي کے کام نہ آئے اور نہ کوئي کسي دوسرے کے لئے آواز اٹھائے۔ اس کے لئے مغرب کي مثال دے سکتے ہيں جنہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے جہاں دوسرے بہت سارے اقدامات کئے وہيں پر شادي کے نظام پر بھي زوردار ضرب لگائي اور جنسي بے راہ روي کو فروغ ديا۔ چنانچہ شادي جيسے ديرپا رشتہ کي جگہ شادي کے بغير ساتھ رہنے کا نظام رائج کرنے کي کوشش کي جس سے ۔۔۔

۔۔۔ مرد و عورت کے درميان تعلق تو پيدا ہوا ليکن کوئي ذمہ داري عائد نہ ہوئي۔

۔۔۔ بچہ کي ولادت تو ہوئي ليکن اس کي تربيت کے لئے باپ موجود نہ تھا۔

۔۔۔ باپ کي غيرموجودگي کي وجہ سے بچہ کي ضروريات کو پورا کرنے کے لئے ماں گھر سے نکلنے پر مجبور ہوئي تو اس کے اور اس کے بچوں درميان محبت کي جڑيں گہري نہ ہو سکيں چنانچہ ماں نے بچوں کي پيدائش سے پرہيز شروع کر ديا يا بچے کے دل ميں وہ مقام نہ بنا سکي۔

۔۔۔ جب بچہ يا بچي 18 سال کي ہوئي تو اس نے گھر کو خيرباد کہہ کر اپني زندگي الگ کرلي اور بوڑھے ماں باپ کو Nursery Homes ميں رکھ ديا۔

۔۔۔ Privacy کو اتني اہميت دي گئي کہ رشتہ دار اور دوست ايک حد سے زيادہ نزديک نہ ہوئے۔

۔۔۔ بچوں کي نسبت والدين کي اور والدين کي نسبت سے بچوں کي سماجي ذمہ داري حکومت کے حوالے کر دي گئي۔

انجامِ کار اب لوگوں کو اپنے اردگرد کوئي مددگار نظر نہيں آتا اور وہ اپنے آپ کو بالکل اکيلا محسوس کرتے ہيں اور پھر بڑھتے ہوئے اضطراب کي وجہ سے اعصابي کمزوري اور ديگر بيماريوں کا شکار ہو جاتے ہيں۔

Rochestin يونيورسٹي کے ڈاکٹر ہيري ريز (Dr Harry Reis) جنہوں نے رشتوں کے موضوع پر تحقيق کرنے کے بعد Encyclopedia Of Human Relationship نامي کتاب لکھي ہے، کا کہنا ہے کہ محبت اور صحت کا آپس ميں ايک عجيب جو ڑہے۔ انسان کي تخليق ميں ملاپ کو رکھا گيا ہے جو اچھا اور پائيدار ہو تو اس کا پھل بھي اتنا ہي ميٹھا ہوتا ہے۔ اس ملاپ سے مراد صرف جسماني ملاپ نہيں ہے، کيونکہ کم مدت کے جوشيلے جسماني ملاپ کے بارے ميں سائنس نے خاص مثبت اثرات کا ذکر نہيں کيا ہے بلکہ کہتے ہيں کہ يہ ايک طرف سے حيرت انگيز محسوس ہوتا ہے تو دوسري طرف سے ذہني کرب اور تکليف کا بھي سبب بنتا ہے اور سخت Stressfull بھي ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ريز کے مطابق پُرسکون اور پائيدار تعلق اور رشتہ صحت کے لئے مفيد ہے۔ اس رشتہ سے مراد صرف پائيدار شادي شدہ رشتہ مراد نہيں ہے بلکہ اس ميں وہ تمام رشتے شامل ہيں جن سے انسان سماجي بندھن ميں مضبوطي سے بندھ جائے، خواہ وہ والدين کے ساتھ ہو، بھائي بہنوں کے درميان ہو يا دوستوں کے حوالے سے۔ اس کي مخصوص وجہ يہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو لوگوں کے ساتھ رشتہ ميں جڑا ہوا محسوس کريں، جہاں آپ کي عزت ہو، آپ کي اہميت ہو اور جہاں آپ کي کمي محسوس کي جاتي ہو۔

ڈاکٹر ريز کہتے ہيں کہ سائنس کو اب تک اس کي وجہ نہيں معلوم کہ صحت پر اس رشتہ کے مثبت اثرات کي کيا وجہ ہے ليکن وہ کہتے ہيں کہ انسان کي تخليق ميں معاشرتي اور سماجي ماحول ميں رہنے کو ترجيح دي گئي ہے اور جب وہ اس ماحول سے کٹ کر الگ تھلگ اور اکيلا رہتا ہے تو اس کا حياتياتي نظام تناو کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ بيماري کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس ميں ايک تھيوري يہ بيان کي جاتي ہے کہ جب آپ لوگوں کے درميان رہتے ہيں تو لوگ آپ کو برائيوں پر ٹوکتے ہيں اور اچھي عادتوں کي طرف راغب کرتے ہيں اس طرح آپ اپني صحت کا خيال رکھتے ہيں اور تندرست و توانا رہتے ہيں ليکن يہ صرف اس معاشرے ميں ہوتا ہے جہاں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر ہوتا ہے۔

ديرپا محبت کے دس حيرت انگيز فائدے :

١۔ شادي شدہ لوگ ڈاکٹروں کے پاس کم جاتے ہيں اور ہسپتالوں ميں ان کا قيام بھي کم ہوتا ہے۔

٢۔ دوسرا مثبت اثر يہ ہے کہ آپ ڈپريشن کا شکار نہيں ہوتے۔ سائنس نے ہميشہ باور کيا ہے کہ اگر آپ سماجي طور پر اکيلے ہيں تو آپ کو ڈپريشن کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ تنہائي کي وجہ سے سگريٹ نوشي، شراب نوشي اور دوسري نشہ آور چيزوں کے استعمال ميں مشغول ہو جاتے ہيں جن کا انساني صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ يہاں تک کہ بہت سے لوگ اس تنہائي سے گھبراکر خودکشي کر ليتے ہيں۔

٣۔ تيسرا فائدہ يہ ہے کہ اس سے آپ کا B,P بہت بہتر اور کنٹرول ميں رہتا ہے ليکن اس کے لئے ضروري ہے کہ آپ کا گھريلو ماحول خوشگوار ہو۔ چنانچہ جو جوڑے آپس ميں تناو ميں رہتے ہيں ان کا بلڈ پريشر کنٹرول ميں نہيں رہتا۔

٤۔ ديرپا اور مضبوط رشتہ ميں بے چيني اور پريشاني کا عنصر مختصر مدت کے اور ڈھيلے ڈھالے رشتہ کي نسبت بہت کم ہوتا ہے۔

٥۔ ديرپا محبت والے رشتہ سے درد کو برداشت کرنے کي قوت ميں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح کے لوگوں کو سردرد اور کمردرد کي شکايت کافي کم ہوتي ہے۔

٦۔ ديرپا رشتہ سے انسان ميں دوسرے ذہني دباو والے معاملات کو برداشت کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کي سکت بڑھ جاتي ہے کيونکہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ مدد کرنے اور مفيد مشورہ دينے کے لئے موجود ہيں۔

٧۔ ديرپا رشتہ ميں بندھے لوگوں کا قدرتي جسماني مدافعتي نظام بھي زيادہ قوي ہوتا ہے اور ايسے لوگوں کو عموماً فلو اور زکام وغيرہ کي بيمارياں بھي کم لاحق ہوتي ہیں۔

٨۔ اسي طرح سے ريسرچ نے يہ بھي ثابت کيا ہے کہ ديرپا رشتہ ميں بندھے لوگوں کے اندر زخم کو ٹھيک کرنے کي طاقت بھي زيادہ ہوتي ہے۔ يعني ان کا زخم جلدي ٹھيک ہوجاتا ہے۔

٩۔ تحقيقات سے يہ بھي معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ ديرپا اور بہتر سماجي نظام ميں زندگي گذارتے ہيں ان کي زندگي نسبتاً طويل ہوتي ہے ان لوگوں کے مقابلہ ميں جو اکيلے اور کمزور سماجي نظام ميں زندگي گذارتے ہيں جہاں ان کي مدد ¬ مشورے اور محبت کے لئے لوگ موجود نہيں ہوتے ہيں۔

١٠۔ ريسرچ نے يہ بھي ثابت کرديا ہے کہ جو لوگ ديرپا محبت والے ماحول ميں زندگي گذارتے ہيں چاہے ان کے پاس پيسہ کي فراواني نہ ہو تب بھي وہ زيادہ خوش رہتے ہيں ان لوگوں کے مقابلہ ميں جن کے پاس بہت پيسہ ہے ليکن ديرپا محبت والا ماحول نہيں ہے ۔

بشکریہ : ڈاکٹر نفيس حسني


متعلقہ تحریریں:

بیٹی  رحمت ہے

رسم و رواج سے پاک ازدواج

ازدواجی اخراجات

ازدواجی مشکلات اور ان کا حل

اسلام اورخواھشات کی تسکین

شادی کی پیشکش

ازدواجي زندگى

جديد جنسي اخلاق کے حاميوں کے نظريات