• صارفین کی تعداد :
  • 5725
  • 11/4/2008
  • تاريخ :

قرآن و حديث کي روسے عالم اسلام کي بيداري کي ضرورت

قرآن مجید

اسلامي امت کي سب سے بڑي مصيبت بعض مسلمانوں کا بعض مسلمانوں کو کافر قرار دينا يا ان کي تکفير ہے يہ مصيبت فرقوں ميں اختلافات اور نظريات کے الگ ہونے اور اسلام کے مفاہيم کا غلط معني کرنے نيز  بےجا تعصب کي بنا پر وجود ميں آئي ہے ۔

اس مضمون ميں قرآني آيات و احاديث اور علماء کے نظريات سے استفادہ کرکے ثابت کيا گيا ہے کہ مسلمان کي تکفير جائز نہيں ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام تر ذرايع استعمال کرکے اسلامي ثقافت کو رائج کرنے ميں کہ جس ميں دوسروں کے احترام پر تاکيد کي گئي ہے اور اتحاد قائم کرنے ميں کردار ادا کرنا چاہيے ۔

 

ہجرت نبوي کے پانچويں سال ميں جنگ خندق پيش آئي اسے جنگ احزاب بھي کہتے ہيں اس جنگ ميں مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ کرنے کے لۓ سلمان فارسي کي تجويز پر خندق کھودي تھي يہ خندق اسلام و کفر کے درميان حا‏ئل تھي

،کيا آج ہم کفر کي فوج اور اس کے آلہ کاروں کا مقابلہ کرنے کے لۓ خندق کھود سکتے ہيں؟ 

سورۃ احزاب کے آغاز ميں ديني ،اجتماعي ،سياسي ،اور اخلاقي لحاظ سے دوگانگي يا دو رخي رويے کي نفي کي گئي ہے ارشاد ہوتا ہے ما جعل اللہ لرجل من قلبين في جوفہ خدا نے کسي آدمي کے سينے ميں دو دل پيدا نہيں کۓ يعني خدا نے انسان کو بيک وقت دو طرح سے سوچنے کي صلاحيت نہيں دي ہے تاکہ وہ دوگانگي کا شکار ہوجاۓ۔ اس سورہ ميں مسلمان کو ايک پاک باز آلايشوں سے پاک اور عہد و پيمان پر باقي رہنے والا انسان قرارديا گيا ہے جس کا دين و ايمان مشکلات ميں مزيد مستحکم ہو جاتا ہے -

 

ہميں اس سورہ ميں رسول اسلام صلي اللہ و عليہ وآلہ وسلم کي پيروي کرنے کا حکم ديا گيا ہے ۔

بہت سي قرآني آيات اور احاديث ميں انسان کو رحمت ،وحدت اور اسلامي و انساني اخوت ،انصاف ،اور حصول علم کي طرف دعوت دي گئي ہے ان امور کو اسلامي معاشرے کي تعمير کے لۓ ضروري قرارديا گيا ہے۔

اسلام کي ان اعلي و ارفع تعليمات کے باوجود اسلامي ملکوں ميں جھل غربت اور بيماري کا منحوس مثلث ديکھنے کو ملتا ہے اسي طرح سے مسلم ملکوں ميں ظلم ،عدم مساوات ،طبقاتي فاصلے ،اور اسلامي اور انساني ذمہ داريوں کي طرف سے لاپرواہي ديکھي جا سکتي ہے جس کي وجھ سے ان ملکوں ميں اکثريت کي زندگي درھم برھم ہوکر رہ گئي ہے۔

قرآن

اسلامي امۃ ميں تفرقہ اور تشتت کا سب سے بڑا سبب ايک دوسرے کي تکفير کرنا ہے ہميں قرآني آيات احاديث اور اجتھادات اور ايسے لوگوں کي آرا جو امت کو اتحاد کي طرف بلاتے ہيں ان سے استفادہ کرکے اس بيماري کا علاج تلاش کرنا ہوگا اس طرح سے ہم ايک طرف تو اتحاد کے نظريات کو رائج کريں گے اور دوسري طرف سے بے جا تعصب اور انتہا پسندي پر مبني نظريات کا ازالہ کرنے ميں کامياب ہوجائيں گے جن سے اسلام کي بدنامي ہو رہي ہے اس سلسلے ميں قرآني آيات اور احاديث اور ان کا مفہوم پيش کرنے سے پہلے جو امت کو بيدار کرنے ميں بنيادي اہميت رکھتي ہيں ميں بعض علماء اور اسلامي تحريکوں اور عوام کے درميان عدم اتحاد و انسجام کي طرف اشارہ کرنا چاھتا ہوں۔

 

عالم اسلام کے بزرگ علماء عام طور سے اتحاد پر زور دے رہے ہيں ايسے عالم ميں کچھ ايسے عناصر بھي پاۓ جاتے ہيں جو الگ ذھنيت کے مالک ہيں اور مذھبي اختلافات و بعض آداب و رسوم کي بنا پر مسلمانوں کو کافر قرار ديتے ہيں يہي نہيں بلکہ انہيں واجب القتل بھي قرار ديديتے ہيں -

جبکہ اسلام ميں انسان کي جان اور اس کے تحفظ پر تاکيد کي گئي ہے ارشاد خداوندي ہے کہ

 من قتل نفسا بغير نفس اور فساد في الارض فکانما قتل الناس جميعا

(سورۃ مائدہ 32)جو شخص کسي کو نہ جان کے بدلے ميں نہ ملک ميں فساد پھيلانے کي سزاميں (بلکہ ناحق )قتل کردے تو گويا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

اسي طرح سورہ نساء ميں ارشاد ہوتا ہے کہ وما کان لمومن ان يقتل مومنا الاّخطاء کسي ايمان دار کے لۓ يہ جائز نہيں کہ کسي مومن کو جان سے مار ڈالے مگر غلطي سے ۔

اس کي ايک آيت کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ومن يقتل مومنا متعمدا فجزا‎ؤہ جھنم خالدا فيھا و غضب اللہ عليہ و لعنہ و اعدلہ عذابا عظيما اور جو شخص کسي مومن کو جان بوجھ کے مار ڈالے تو اس کي سزا دوزخ ہے اور ہميشہ اس ميں رہے گا اس پر خدا نے اپنا غضب ڈھايا ہے اور اس پر لعنت کي ہے اور اس کے لۓ بڑا سخت عذاب تيار کررکھا ہے ۔

يہاں پر واضح ہے کہ قرآن نے مسلمان کے لۓ مومن کي تعبيراستعمال کي ہے جبکہ سورہ حجرات ميں فرماتا ہے کہ قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا و لکن قولوا اسلمنا بدو عرب کہتے ہيں کہ ہم ايمان لے آۓ اے رسول کھ دو کہ تم ايمان نہيں لاۓ بلکہ کہو کہ اسلام لے آۓ ۔

اس آيۃ سے پتہ چلتاہے کہ اسلام ميں تمام مسلمان شامل ہيں اور ان کے دل کا حال خدا جانتا ہے اور وہي ان کے ايمان کي حقيقت سے بھي واقف ہے اور ان کے ايمان کا حساب روز قيامت کيا جاۓ گا ان آيات شريفہ سے ہم يہ سمجھتے ہيں کہ کسي مسلمان کو کافر قرار دينا اور اس کے قتل کا حکم دينا جائز نہيں ہے اور يہ امر خود ايک طرح سے اتحاد و يکجھتي کي دعوت دينا ہے ۔

شاطبي اپني کتاب المواقفات ميں لکھتے ہيں کہ امت اسلامي اور ديگر اہل کتاب اس بات پر اتفاق رکھتے ہيں کہ شريعت کا مقصد ضروريات يعني دين ، جان، مال، نسل و عقل کي حفاظت ہے(4 )، ان کا کہنا ہے کہ انساني جان کے تحفط پر اس قدر تاکيد کي گئي ہے کہ قتل نفس پر قصاص رکھا گيا ہے اور عذاب خدا سے ڈرايا گيا ہے يہي نہيں بلکہ قتل نفس گناہان کبيرہ ميں شامل ہے جو شرک سے بہت نزديک ہے جس طرح سے کہ نماز ايمان سے قريب تر ہے ۔

 

سٹيلائٹ ٹي وي چينلوں کا شايد يہ ايک مثبت پہلو ہو کہ وہ تنگ نظر افراد کے نقطۂ نظر کو بھي بيان کرتے ہيں ،کچھ لوگوں نے سوال کيا تھا کہ وہ ملت عراق کي مدد کرنا چاہتے ہيں ليکن اس وجہ سے وہ مدد نہيں بھيج رہے ہيں کہ انہيں خوف ہے کہ ان کي بھيجي ہوئي مدد کہيں ديگر مسلک اور فرقے کے لوگوں کو نہ مل جاۓ اس طرح کي سوچ ترجيحات کي نفي اور اتحاد کي مخالف ہے اس طرح کے دو رخي رويے ہميں خوارج کي ياد دلاتے ہيں جنہوں نے رسول اسلام (ص) کے گرانقدر صحابي خباب بن ارت کو قتل کيا اور ان کي حاملہ زوجہ کا پيٹ چاک کرکے انہيں بھي قتل کرديا ليکن ايک يہودي کو جب تک اس کے خرموں کي قيمت نہ ديدي خرمے نہيں کھاۓ

(يہ تنگ نظري اور شدت پسندي نہيں تو اور کيا ہے )

سورۂ احزاب ميں خاص طور سے دودلي کي بات کي گئي ہے جس کا سرچشمہ نفاق ہے يہ نفاق مدينہ ميں بھي اس وقت ديکھنے کو ملاتھا جب کفار نے مدينے کا محاصرہ کرليا تھا ، منافقين کے دل ميں کفر ہوتا ہے اور وہ صرف ظاہري طور پر اسلام کي بات کرتے ہيں قرآن ميں منافقون نام کا ايک سورہ بھي ہے اس سورہ ميں خدا نے انہيں دروغ گوئي کفر اور دشمني کي صفتوں کا حامل قرار ديا ہے اس کے بعد رسول اکرم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے کہ

سواء عليہم استغفرت لھم ام لم تستغفر لھم لن يغفراللہ لھم تم ان کے لۓ مغفرت کي دعا مانگو يا نہ مانگو ان کے حق ميں برابر ہے خدا تو انہيں ہرگز بخشے گا نہيں ۔

سورہ نساء ميں بھي ارشاد ہوتا ہے کہ ان المنافقين في الدرک الاسفل من النار بے شک منافقين کي جگہ جھنم کے آخري طبقے ميں ہے ۔

 قرآن

ان تمام امور کے پيش نظر اور جب کہ حضرت جبرائيل نے رسول اسلام (ص) کو منافقين کے ناموں سے آگاہ کرديا تھا اور مسلمانوں کو مدينے ميں کافي طاقت بھي حاصل ہوچکي تھي ليکن رسول اسلام (ص) منافقين سے ان کي ظاہري حالت کے مطابق ہي پيش آتے تھے يعني مسلمانوں کي طرح ہي پيش آتے تھے کيونکہ انہوں نے خواہ ظاہري طور پر ہي کيوں نہ ہو کلمہ شہادتين جاري کيا تھا رسول اسلام (ص) نے ان کے باطن کا حساب خدا کے حوالے کرديا تھا ،يہاں ہم خود سے سوال کرسکتے ہيں کہ کيا ہميں امت ميں ترجيحات کے مطابق عمل نہيں کرنا چاہيے ؟

کيا ہميں اس سلسلے ميں بھي رسول اسلام (ص) کي سنت کي پيروي نہيں کرنا چاہيے رسول (ص) کي اس سيرت کے پيش نظر کيا ہم دوسرے فرقوں کے مسلمان بھائيوں کو منافق قرار دے سکتے ہيں؟ سيرت رسول (ص) تو يہي بتاتي ہے کہ ہم ہرگز ايسا نہيں کرسکتے۔

 

رسول اسلام(ص) کي حديث شريف کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بھي لاالہ الاللہ کو اپني زبان پر جاري کر لے اس کے قتل کا حکم نہيں ديا جا سکتا صحيح مسلم ميں يہ حديث  ديکھي  جا  سکتي  ہے  کہ  سمعت  اسا مۃ بن  زيد بن حارثہ  يحدث قال  بعثنا رسول اللہ (ص) الي الحرقہ من جھنيۃ فصبحنا القوم فھزمناھم ،قال و لحقت انا و رجل من الانصار رجلا منھم فلماغشيناہ قال لاالہ الااللہ قال فکف عنہ الانصاري و طعنتہ برمحي حتي قتلتہ قال فلما قدمنا بلغ ذلک النبي فقال لي يا اسامۃ اء قتلتہ بعد ما قال لاالہ الااللہ ؟قال فمازال يکررھا علي حتي تمنيت اني لم اکن اسلمت قبل ذلک اليوم -

 

اسامۃ بن حارثہ سے ميں نے سنا کہ انہوں نے کہا ايک دن رسول اسلام (ص) نے ہميں جھنيہ قبيلے کے حرقہ طائفہ کي طرف روانہ فرمايا علي الصباح ہم لوگ وہاں پہنچ گۓ اور نہيں شکست ديدي اسامۃ کہتے ہيں ميں نے اور ايک انصاري نےحرقہ کے ايک شخص کو جاليا جب اسے زمين پر گرا کر نزديک تھا کہ قتل کرديں تو اس نے کہا لاالہ الااللہ انصاري نے فورا اپني تلوار ہٹا لي ليکن ميں نے اسے نيزہ سے مار کر قتل کرديا ،اسامۃ کہتے ہيں اس کے بعد ہم لوگ مدينے لوٹ آۓ رسول اسلام (ص) کو يہ خبر پہنچ چکي تھي آپ نے مجھ سے فرمايا اے اسامۃ کيا تم نے اس شخص کو لاالہ الااللہ کہنے کے بعد بھي مار ڈالا ؟اسامۃ کہتے ہيں کہ رسول اسلام (ص) بار بار اس جملے کي تکرار فرماتے رہے اور ميں دل ميں خود کو کوستا رہا کہ کاش اس دن سے قبل مسلمان نہ ہوا ہوتا ۔

 

ايک اور روايت ميں ہے فکيف تصنع ب لاالہ الااللہ اذاجاءت يوم القيامۃ ۔اگر روز قيامت لاالہ الااللہ تمہارا دامن تھام لے تو کيا کرو گے ؟

اس حديث شريف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مشرک جس نے کئي مسلمانوں کو قتل کيا ہے اگر وہ بھي اپني زبان پر کلمہ توحيد لاالہ الااللہ جاري کر ليتا ہے تو رسول اسلام (ص) کے نزديک اس کا قتل صحيح نہيں ہے اور اگر اسامۃ کي آرزو کو ديکھيں جو انہوں نے کہا تھا کہ اے کاش ميں اس دن سے قبل مسلمان نہ ہوا ہوتا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام جاھليت کے دور کے گناہوں کو معاف کر ديتا ہے لھذا معلوم ہوا کہ مسلمان کي تکفير اور اسے قتل کرنا گناہ عظيم ہے ۔

جب عمر ابن خطاب زخمي ہوگۓ تھے اور موت کے قريب تھے تو ابن عباس نے ان سے کہا کہ مدينے کے پست اور سرکش لوگوں کو قتل کر دو 

 تو انہوں نے کہا کہ رسول اسلام (ص) نے فرمايا ہے کہ انما الاعمال باالنيات و انما لکل امرء ما نوي اعمال کا انحصار نيت پر ہے اور انسان کو وہي ملے گا جو اس کي نيت ہو ۔

سورہ عاديات ميں ارشاد ہوتا ہے کہ افلا يعلم اذا بعثر ما في القبور و حصل ما في الصدورکيا انسان يہ نہيں جانتا کہ جب مردے قبروں سے نکالے جائيں گے اور دلوں کے بھيد ظاہر کر دۓ جائيں گے -

قرآن مجید

يہ آيت و حديث اعمال کو نيت پر تولتي ہے اور نيت سے سواۓ خدا کے کوئي واقف نہيں ہوتا لھذا ہم ظاہري حالت کو نظر انداز کرکے کسي مسلمان پر کفر اور اس کے قتل کا حکم جاري نہيں کر سکتے ۔

ہمارے مدعا کي تائيد فتح مکہ کے دن رسول اسلام (ص) کي سيرت سے بھي ہوتي ہے مکہ فتح کرنے کے بعد آپ (ص) نے مشرکين سے فرمايا کہ اذھبوا انتم الطلقاء 

 جاؤ تم سب آزاد شدہ ہو آپ (ص) نے انہيں قتل کرنے کي ممانعت کي اور ان سے يہ مطالبہ نہيں کيا کہ فورا مسلمان ہو جائيں ، اس کے علاوہ تاريخ ہميں بتاتي ہے کہ رسول اسلام (ص) نے جنگ حنين کے بعد مشرکين ميں جنگي غنائم تقسيم کۓ تاکہ وہ اسلام کي طرف راغب ہوں ۔

سورہ نساء ميں خدا فرماتا ہے کہ ان اللہ لا يغفران يشرک بہ و يغفرما دون ذلک لمن يشاء خدا البتہ اس جرم کو تو نہيں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کيا جاۓ ہاں اس کے سوا جو گناہ ہو جسکو چاہے معاف کر دے ،اس آيت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ کسي مسلمان پر کفر و قتل کا حکم کيسے لگايا جا سکتا ہے جبکہ يہ امکان موجود ہے کہ خدا نے اسے معاف کر دے يا معاف کرديا ہو ۔

اس کے علاوہ ايک اور سوال درپيش ہے وہ يہ کہ بعض لوگ کس طرح سے ان مسلمانوں کے کفر وشرک کا فتوي جاري کرديتے ہيں جو کلمہ شہادتين جاري کرتے ہيں نماز پڑھتے ہيں حج کرتے ہيں ،روزہ رکھتے ہيں ، کياصرف و صرف اس لۓ کہ وہ ان ھم مسلک اور ھم رائے نہيں ہيں ؟

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں کہ اسلام خدا کي وحدانيت اور رسول اللہ (ص) کي نبوت کا اقرار کرنا ہے ان شہادتوں سے جانوں کي حفاظت ہوتي ہے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے اس طرح اسلامي امت ميں کلمہ لاالہ الاللہ کي اھميت واضح فرمائي ہے ۔

ابوالحسن اشعري نے بھي کہا ہے کہ وہ اھل قبلہ ميں سے جو بھي شہادتيں جاري کر لے اسے کافر نہيں قرار دے سکتے ۔

شاطبي نے الوافقات ميں اس باب کے تحت کے منحرف گروہوں کي گمراہي انہيں دين سے خارج نہيں کرتي لکھا ہے کہ منحرف گروہ گمراہي کے سبب دين سے خارج نہيں ہوتے کيونکہ رسول اسلام (ص) نے ايسے گروہوں کے بارے ميں فرمايا ہے تفترق امتي يعني آپ (ص) نے يہ فرماکر کہ ميري امت متفرق ہوجائے گي ان گروہوں کو اپني امت سے نسبت دي ہے جبکہ اگر يہ گروہ اپني بدعتوں کي بنا پر دين سے خارج ہوتے تو انہيں امت سے نسبت نہ دي جاتي ،اسي طرح اھل بدعت کو کافر قرار دينے ميں علماء کے درميان اختلاف ہے اس کي وجہ يہ ہے کہ نصوص شرعيہ ميں اھل بدعت کے دين سے خارج ہونے کے سلسلے ميں کوئي دليل نہيں ہے اور اصل يہ ہے کہ وہ دين کے دائرے ميں ہيں مگر يہ کہ کسي دليل سے اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہو ۔

 

اس مضمون ميں جو کچھ آپ کے سامنے پيش کيا گيا وہ ان متون و نصوص کا ايک چھٹا سا نمونہ تھا جو مسلمانوں کي تکفير و قتل کو حرام قرار ديتي ہيں اور اگر علماء و دانشوروں کے علاوہ بھي معاشرے کے دوسرے طبقے ذرايع ابلاغ عامۃ سے علماء کے فتووں سے آگاہي حاصل کريں اور ہمارے علماء و دانشور اپنے قلم و زبان سے سنت نبوي (ص) کا دفاع کريں اور اتحاد اسلامي کے کوششيں کريں تو معاشرے ميں نئي فکر رائج ہو گي اور وہ فکر ايک دوسرے کا احترام کرنے نيز ايک دوسرے کي بات سننے کي ہوگي اس طرح ہم آزادي فکر و بيان اور گفتگو کے سازگار ماحول ميں قدم رکھيں گے اور نتيجہ ميں ہماري امت کے درميان تعاون و مفاھمت بڑھتي جاۓ گي اور آخر کار ہم ايک امت واحدہ بن جائيں گے ۔

                     تحریر : ڈاکٹر محمد کامل حاتم  (https://taghrib.ir )