• صارفین کی تعداد :
  • 2962
  • 9/19/2011
  • تاريخ :

اسلام کي نظرميں عورت کي اہميّت

حجاب والی خاتون

قرآن اور اہلبيت عليہم السلام کي روايتوں ميں بعض عورتوں کو نيکي اور اچھائي کے ساتھ ياد کيا گيا ہے ، اس مقام پر ہم چند آيت وروايت بطور نمونہ پيش کرتے ہيں:

آيات:

1-''انّ المسلمين والمسلمات والمومنين و المومنات والقانتين والقانتات والصّادقين والصّادقات والصّابرين والصّابرات والخاشعين والخاشعات والمتصدّقين والمتصدّقات والصّائمين والصّائمات والحافظين فروجھم والحافظات والذّاکرين اللّٰہ کثيراً والذّاکرات اعدّ اللّٰہ لھم مغفرۃ واجراً عظيما''

''بے مسلمان مرد اور مسلمان عورتيں اور مومن مرد اور مومن عورتيں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتيں اور سچے مرد اور سچي عورتيں اور صابر مرد اور صابر عورتيں اور فروتني کرنے والے مرد اور فروتني کرنے والي عورتيں اور صدقہ دينے والے مرد اور صدقہ دينے والي عورتيں ،روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والي عورتيں اور اپني عفت کي حفاظت کرنے والے مرد اور عورتيں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتيں- اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظيم اجر مہيا کر رہا ہے'' -

اس آيہ ء کريمہ ميں مرد اور عورت کا تذکرہ ايک دوسرے کے پہلو ميں کيا گيا ہے اور خداوند عالم نے ان دونوں کے درميان ثواب اور جزا کے لحاظ سے کوئي فرق نہيں رکھا ہے -

2-'' يا ايّھا الناس انّا خلقناکم من ذکر وانثيٰ وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم انّ اللّٰہ عليم خبير ''

''اے انسانو ! ہم نے تم کو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا کيا ہے اور پھر تم ميں شاخيں اورقبيلے قرار ديئے ہيں تا کہ آپس ميں ايک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم ميں سے خدا کے زنديک زيادہ محترم وہي ہے جو زيادہ پرہيزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے'' -

خداوند عالم نے اس آيہئ کريمہ ميں بھي مرد اور عورت کي جنسيت ،حسب ونسب اور رنگ کي بناء پر انسانوں کي برتري اور بلندي کو معيار قرار نہيں ديا ہے ، بلکہ خداوند عالم کے نزديک سب سے اہم اور گرانقدر شے تقويٰ اور احکام الٰہي پر عمل کرنا ہے اور يہ آيت قوم پرستي کوباطل سمجھي ہے-

3-''من عمل صالحاً من ذکر اوانثيٰ وھو مومن فلنحيينّہ حياۃ طيّبۃ ولنجزينّھم اجرھم باحسن ما کانوا يعملون ''

''جو شخص بھي نيک عمل کرے گا وہ مرد ہو يا عورت بشرطيکہ صاحبان ايمان ہو ہم اسے پاکيزہ حيات عطا کريں گے اور انھيں ان اعمال سے بہتر جزا ديں گے جو وہ زندگي ميں انجام دے رہے تھے ''-

خداوند عالم نے اس آيہئ کريمہ ميں جزا اور ثواب کو عمل کے بدلہ ميں قرار ديا ہے اور مرد وعورت کے درميان کوئي فرق نہيں رکھا ہے-

4-'' ومن آيات اَن خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا اليھا و جعل بينکم مودّۃ ورحمۃ انّ ذالک لآيات لقوم يتفکرون ''

''اور اس کي نشانيوں ميں سے يہ بھي ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھيں ميں سے پيدا کيا ہے تا کہ تمھيں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمھارے درميان محبت اور رحمت قرار دي ہے کہ اس ميں صاحبان فکر کے لئے بہت سي نشانياں پائي جاتي ہيں''-

خداوند عالم نے اس آيہئ کريمہ ميں عورت کي خلقت کو اپني نشانياں قرار دي ہيں اور بتايا ہے کہ عورت ،محبت ،رحمت اور آرام وسکون کا باعث ہوتي ہے ،مرد اور عورت دونوں ايک دوسرے سے وابستہ ہونے سے کامل ہوتے ہيں اور ايک دوسرے کے بغير دونوں کا وجود ناقص ہے -

خداوند عالم آيت کے آخر ميں فرماتا ہے يہ مطالب ان افراد کے لئے ہيں جو غور و فکر کرتے ہيں اور اگر کوئي شخص عاقل اور متعال انسان ہو تو وہ متوجہ ہوگا کہ مرد اور عورت ايک دوسري کي تکميل کا باعث ہوتے ہيں اور عورت ہي ہے جو خانوادہ کے وجود کو سرگرم اور خوشحال رکھتي ہے اور انسان کے رشد وکمال کا باعث ہوتي ہے -

روايات:

1-رسول اکرم (ص) نے فرمايا:

'' خير اولادکم البنات ''

'' تمھاري بہترين اولاد لڑکياں ہيں' '-

2-حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا:

'' اذا آذاھا لم يقبل اللّٰہ صلاتہ ولا حسنۃ من عملہ وکان اوّل من يرد النّار ''

''اگر مرد اپني زوجہ کو تکليف پہونچائے تو خداوند عالم اس کي نماز قبول نہيں کرتا ہے اور اسے اس کے عمل کي جزا نہيں ديتا ہے ،وہ سب سے پہلا شخص ہے جو جہنم ميں داخل ہوگا''-

يہ ہے اسلام ميں عورت کي اہميت اور اس کي منزلت ليکن خواتين بالخصوص علم حاصل کرنے والي لڑکياں عام طور سے يہ سوال کرتي ہيں کہ مرد کي بہ نسبت عورت کي ميراث آدھي کيوں ہے ؟ کيا يہ عدالت کے مطابق ہے اوريہ عورت کے حقوق پرظلم نہيں ہے؟

جواب:

اول يہ کہ : ہميشہ ايسا نہيں ہے کہ مرد ، عورت کي ميراث سے دو گنا ميراث پائے، بلکہ بعض وقت مرد اور عورت دونوں برابر ميراث پاتے ہيں منجملہ ميت کے ماں باپ دونوں ميراث کاچھٹاں حصہ بطورمساوي پاتے ہيں،اسي طرح ماں کے گھرانے والے خواہ عورتيں ہوں يامرددونوں بطور مساوي ميراث پاتے ہيں اوربعض وقت عورت پوري ميراث پاتي ہے ...

دوسرے يہ کہ: دشمن سے جہادکرنے کے اخراجات مرد پر واجب ہوتے ہيں جب کہ عورت پريہ اخراجات واجب نہيں ہيں -

تيسرے يہ کہ: عورت کے اخراجات مرد پر واجب ہيں اگرچہ عورت کي درآمد بہت اچھي اور زيادہ کيوں نہ ہو-

چوتھے يہ کہ: اولاد کے اخراجات چاہے وہ خوراک ہو يا لباس و غيرہ ہوں، مرد کے ذمہ ہے -

پانچويں يہ کہ: اگر عورت مطالبہ کرے اور چاہے تو بچوں کو جو دودھ پلاتي ہے وہ شيربہا (دودھ پلانے کا ہديہ)  لے  سکتي ہے -

چھٹے يہ کہ: ماں باپ اور دوسرے افراد کے اخراجات کہ جس کي وضاحت رسالہء  عمليہ ميں کي گئي ہے، مرد کے ذمہ ہے-

ساتويں يہ کہ: بعض وقت ديہ (شرعي جرمانہ) مرد پر واجب ہے جب کہ عورت پر واجب نہيں ہے اور يہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب کوئي شخص سہواً جنايت کا مرتکب ہو، تو اس مقام پر مجرم کے قرابتداروں (بھائي، چچا اور ان کے بيٹوں) کو چاہئے کہ ديہ ادا کريں -

آٹھويں يہ کہ: شادي کے اخراجات کے علاوہ شادي کے وقت مرد کو چاہيئے کہ عورت کو مہر بھي ادا کرے -

اس بناء پر زيادہ تر مرحلوں ميں مرد خرچ کرنے والا اور عورت اخراجات لینے والي ہوتي ہے، اسي وجہ سے اسلام نے مرد کے حصہ کو عورت کي بہ نسبت دو گنا قرار ديا ہے تاکہ تعادل برقرار رہے اور اگر عورت کي ميراث مرد کي ميراث سے آدھي ہو تو يہ عين عدالت ہے اور اس مقام پر مساوي ہونا مرد کے حقوق پر ظلم ہے -

اسي بناء پر حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا:

ماں باپ اور اولاد کے اخراجات مرد پر واجب ہيں-

حضرت (ع) سے پوچھا گيا کہ عورت کي بہ نسبت مرد کي ميراث دو گنا کيوں ہوتي ہے ؟ حضرت (ع) نے فرمايا: اس لئے کہ عاقلہ کا ديہ، زندگي کے اخراجات، جہاد، مہر اور دوسري چيزيں عورت پر واجب نہيں ہيں جب کہ مرد پر واجب ہيں -

جب حضرت امام علي رضا (ع) سے پوچھا گيا کہ عورت کي ميراث کے آدھي ہونے کي علت کيا ہے، تو آپ نے فرمايا: اس لئے کہ جب عورت شادي کرتي ہے تو اس کا شمار (مال) پانے والي ميں ہوتا ہے جب کہ مرد کا شمار خرچ کرنے والوں ميں ہوتا ہے، اس کے بعد امام (ع) نے سورہ نساء آيت نمبر34/ کو دليل کے طور پر پيش کيا-

تحریر: مولانا حسن رضا قمي جلال پوري


متعلقہ تحريريں :

اسلام ميں تعليم نسوان پر تاکيد (حصّہ دوّم)

ايران کي تاريخ ميں عورت ( حصّہ دوّم )

اسلام ميں تعليم نسوان پر تاکيد

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ چہارم )

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ سوّم )