• صارفین کی تعداد :
  • 537
  • 5/16/2012
  • تاريخ :

منٹو کو گئے آدھي صدي بيت گئي

منٹو

سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہوئے پچاس برس پورے ہو چکے ہيں پاکستان ميں اُن کي پچاس سالہ برسي پر کئي شہروں ميں تقريبات منعقد ہو چکي ہيں ـ اس مضمون کا مقصد نہ تو اُن تقريبات کا جائزہ لينا ہے اور نہ ہي منٹو کي افسانہ نگاري کے عيوب و محاسن بيان کرنا ، بلکہ يہ محض ذاتي يادوں پر مبني ايک تحرير ہے جسے آپ زيادہ سے زيادہ ’نستالجيا‘ کا شاخسانہ قرار دے سکتے ہيں-

منٹو کو ميں نے پہلي اور آخري بار آٹھ برس کي عمر ميں ديکھا تھا اور وہ بھي کوئي دو سو فٹ کے فاصلے سے البتہ اُن کي آواز ميں نے دس فٹ کے فاصلے سے ضرور سني تھي-

ہم اُن دنوں لاہور ميں مال روڈ کي گنگا رام بلڈنگ کے ايک بالائي فليٹ ميں رہتے تھے اور جيسا کہ مجھے برسوں بعد معلوم ہوا، منٹو صاحب کا گھر وہاں سے پندرہ منٹ کے پيدل فاصلے پر تھا- اگرچہ يہ مختصر فاصلہ بھي وہ سالم ٹانگے کے بغير طےنہ کرتے تھے

غالباً 1954 کا زمانہ تھا اور ميں دوسري جماعت کا طالبِ علم تھا-اتوار کي سہ پہر تھي جب دروازے پر دستک ہوئي اور ايک باريک مگر قدرے کھردري آواز آئي ’وقار بھائي‘-

 سرخ ليٹر بکس، سفيد لباس اور خالي ٹانگے کا يہ منظر اب ہميشہ کے لئے ميري ياداشت ميں محفوظ ہو چکا ہے

ملازم نے دروازے پر جا کر کچھ بات کي اور وہ شخص واپس چلا گيا اُن دنوں والد صاحب شايد روزنامہ آفاق سے وابستہ تھے اور ہمارے گھر ميں ملاقاتيوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جو اپنے بچوں کو ملازمت دلوانے، بھارت ميں چھوڑي ہوئي جائيداد کا کليم داخل کرانے، بے قصور پکڑے جانے والے کسي عزيز رشتے دار کو پوليس کے چُنگل سے چھڑانے يا اس طرح کي کوئي اور سفارش کرانے آ جا تے تھے-

ميرا خيال تھا کہ آج کا ملاقاتي بھي انہي ميں سے ايک ہو گا- ليکن جب والد صاحب واپس آئے اور ملازم نے بتايا کہ منٹو صاحب آئے تھے تو وہ اُس پر برس پڑے: ’تم نے اُنہيں بٹھايا کيوں نہيں؟‘ اور والد صاحب تيزي سے نيچے کي طرف دوڑے- تب مجھے احساس ہوا کہ آج کا ملاقاتي کوئي خاص آدمي تھا-

تھوڑي دير کے بعد ميں نے بالکوني سے ديکھا کہ سڑک کے کنارے تکونے باغ کے سرے پر سرخ ليٹر بکس کے پاس والد صاحب ايک شخص سے باتيں کر رہے ہيں جو سفيد کرتے اور پجامے ميں ملبوس ہے اُس کے ہاتھ ميں کوئي کاغذ ہے جو وہ والد صاحب کو دکھا رہا ہے اور سامنے ايک خالي ٹانگہ کھڑا ہے......تو يہ تھے منٹو صاحب !

سرخ ليٹر بکس، سفيد لباس اور خالي ٹانگے کا يہ منظر اب ہميشہ کے لئے ميري ياداشت ميں محفوظ ہو چکا ہے-

 پہلي مرتبہ سعادت حسن منٹو کا نام کہاني کار کے طور پر سنا، ليکن اِس اِنتباہي نوٹ کے ساتھ کہ انتہائي فحش اور مخربِ اخلاق کہانياں ہيں اور نوجوانوں کو اُن سے مکمل پرہيز کرنا چاہيے

جب ميں آٹھويں جماعت ميں پہنچا تو پہلي مرتبہ سعادت حسن منٹو کا نام کہاني کار کے طور پر سنا، ليکن اِس اِنتباہي نوٹ کے ساتھ کہ انتہائي فحش اور مخربِ اخلاق کہانياں ہيں اور نوجوانوں کو اُن سے مکمل پرہيز کرنا چاہيے-

نويں جماعت ميں پہنچا توزندگي کا ايک’اہم علمي اور ادبي واقعہ‘ پيش آيا يعني زيورِ طبع سے آراستہ ہونے والي ميري اولين تحرير منصّہ شہود پر آگئي-

يہ ايک مضمون تھا، سعادت حسن منٹو کے خلاف! جس ميں منٹو کو ايک اخلاق باختہ مُصنّف قرار ديتے ہوئےاس کي کہانيوں کومعاشرے کے لئے انتہائي مضرت رساں قرار ديا گيا تھا يہ مضمون شاہ عالمي دروازے سے شائع ہونے والے ايک ہفت روزہ ميں چھپا تھا جس کا نام غالباً نوروز ويکلي تھا- مضمون کي اہم ترين خصوصيت يہ تھي کہ مضمون نگار نے اُس وقت تک منٹو کي ايک بھي کہاني نہيں پڑھي تھي اور يہ سارا مضمون سني سنائي باتوں پر مبني تھا- (يونيورسٹي کي سطح پہ پہنچے تو پتہ چلا کہ بڑے بڑے جيّد نقّاد بھي اس تکنيک سے استفادہ کرتے ہيں)

تو منٹو کے بارے ميں اگلا اہم واقعہ دسويں جماعت ميں پيش آيا جب ميرے کلاس فيلو طيب بخاري نے انکشاف کيا کہ سعادت حسن منٹو 1937 ميں قائدِ اعظم محمد علي جناح کا ڈرائيور ہوا کرتا تھا- تحقيق پر پتا چلا کہ بخاري نے منٹو کے مضمون ’ميرا صاحب ‘ کا سرسري سا مطالعہ کرنے کے بعد ہر طرف اس گوہرِ تحقيق کے چمکارے مارنے شروع کر ديئے تھے- جبکہ منٹو کا قصور محض اتنا تھا کہ اُس نے جناح صاحب کے ڈرائيور آزاد کي کہاني صيغہ واحد متکلم ميں لکھي تھي- اس موقع پر اصلي اور بڑے بخاري صاحب يعني احمد شاہ پطرس کا وہ پيش لفظ ياد آتا ہے جس ميں انہوں نے اپنے مضامين کے راوي سے اپنے قارئين کو پوري طرح روشناس کراتے ہوئے بتا ديا تھا کہ مضامين کا واحد متکلم

’ہر چند کہيں کہ ہے، نہيں ہے‘-

بہر حال سعادت حسن منٹو کاہماري زندگي ميں صحيح طور پر عمل دخل 1967 ميں شروع ہواجب لاہور کے پانچ نوجوانوں نے مل کر منٹو ميموريل سوسائٹي قائم کي، منٹو کي بھُولي بسري قبر کو دريافت کيا، منٹو کے گھر جا کر اُن کي بيگم صفيہ منٹو سے ملاقات کي، منٹو کے پرانے دوستوں سے بات چيت کرکے اسکي برسي کو شايانِ شان طريقے سے منانے کا اہتمام کيا اور منٹو کي کہانيوں کے انگريزي ترجمے ’بليک ملک‘ کو منظر عام پر لانے کا عہد کيا-

تحریر: عارف وقار

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان